مقدار اور معیار
مقدار کے پیچھے بھاگنے والا قدر سے محروم رہ جاتا ہے۔ معیار کی دنیا میں مقدار قابلِ قدر نہیں۔ مقدار کی دنیا میں معیار کا تصور بھی مادی ہے۔ مادّے کی زبان میں معیار کا تعین کسی گنتی سے شروع ہوتا ہے اور کسی اور گنتی پر ختم ہو جاتا ہے۔ معیار کی قدر ہوتی ہے۔ مقدار کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ جس کی قیمت لگ جائے وہ قابلِ فروخت ہوتا ہے اور کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ معیار کی دنیا میں رہنے والا انمول کہلاتا ہے۔ دین معیار کی دنیا ہے۔ دنیا مقدار کا گنتی خانہ ہے۔ معیار کا تعین انسان کرتا ہےٗ مقدار
قطع تعلقی
قطع تعلقی غرور کا اظہار ہے۔ اپنی انا کے مجروح ہونے کا ردّ عمل بھی انا کا اظہار ہوتا ہے۔ خاندانی رشتوں کو ختم کرنا دراصل خدائی فیصلوں کے خلاف بغاوت ہے۔ قطع رحمی مشیت کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہے۔ مشیتِ الٰہیہ نے ہمارے جسم اور ذہن کی ساخت اور پرداخت کیلئے ہمیں جس خاندان، زمان اور مکان میں پیدا کیا ہےٗ وہی ہمیں پروان چڑھانے کیلئے موزوں ترین ہوتا ہے۔ آم شدید گرم زمین میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا رس میٹھا کرنے کیلئے اسے لُو کے تھپیڑوں سے گزارا جاتا ہے، سیب کو سرد خنک موسم درکار ہوتی ہ

Mphil on Dr Azhar Waheed
#wasifkhayal #philosophy #dareehsas
خیر کا خیمہ
خیر کے خیمے میں داخل ہونے کیلئے تسلیم اور اطاعت کا پیمان باندھا جاتا ہے۔ تسلیم میں تامل خیر کی خوشبو کو ماند کر دیتا ہے۔ اطاعت میں تاخیر تعلق میں بساند پیدا کر دیتی ہے۔ تسلیم میں داخل ہونے کا مطلب بے عملی نہیں بلکہ بے سمت عمل سے بچنے کی تدبیر ہے۔ امر کی تسلیم میں داخل ہونے والا اپنے مالک کی تدبیر کا مشاہدہ کر سکے گا۔ تسلیم سے دور غرور کے قریب ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ شاید کائنات کی حرکت اس کی تدبیر پر موقوف ہے۔ وہ ہر روز نیند کی غفلت میں جا سوتا اور اس کائنات اسی رفتار سے چ
قال اور حال
وہ قول جو عمل کے قریب نہ ہوٗ قول کہلانے کے لائق نہیں۔ عمل کی سرحد سے دور اپنے حال سے بے خبر قول بس ایک بڑا بول ہوتا ہے۔ بینرز پر لکھے ہوئے "خوش آمدید" جیسے خوشامدانہ جملے پڑھنے میں دل آویز، دیکھنے میں دیدہ زیب نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن "خوش آمدید" کے معانی وہی الفاظ ارسال کرتے ہیں جو اس زبان سے ادا ہوتے ہیں جو دل کی رفیق ہو۔ قلندر کا قال اس کے حال کے اندر ہوتا ہے۔ عامیوں کا قال۔۔۔۔۔۔ بالعموم حال سے جدا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور جا بجا ہر کوچہِ امکان میں مفاد کا کشکول ہاتھ میں لیے نظر
ایمانی شعور!!
ایمان انسانی شعور کیلئے ایک آسمانی تحفہ ہے۔ ایمان کے پاس انسان کو مادیت کے قید خانے سے آزادی مہیا کرنے کا سامان موجود ہوتا ہے۔ مادّے اور منطق میں محبوس شعور زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔ مادے کے بندی خانے میں اس کا سانس اکھڑنے لگتا ہے۔ میکانیاتی، مالیاتی اور جدلیاتی دائروں میں قید ہو کر رہ جانے والی زندگی کچھ عرصے بعد دم توڑ دیتی ہے۔ ایمان انسان کو مرنے نہیں دیتا۔ ایمان محبت کی طرح ایک الگ شعور ہے۔ ایمانی شعور مادے کو دیکھ لیتا ہے، مادی شعور ایمان کی ماہیبت سے آگاہ
لبرل تعصب!!
کچھ لوگ خود کو لبرل کہتے ہیں لیکن متعصب اس قدر ہوتے ہیں کہ دینی اقدار اور روایات کا مضحکہ اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لبرلزم اور سیکولر کی اگر ان کے اصرار پر وہی نرم اور بے ضرر تعریف کر لی جائے تو بھی یہ اس پر پورا نہیں اترتے۔ اگر کوئی قدامت پسند کسی لبرل کے ابا جان کے لباس کی تراش خراش کا ٹھٹھا اڑائے تو کیا اس فارمولے کے تحت یہ برداشت کیا جا سکتا ہے کہ ہر شخص کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے؟ دین محض کوئی فلسفہ یا نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک زندہ وجود ہے، یہ اپنی اقدار
پہلا قطرہ
پہلا قطرہ حوصلے کا قلزم ہوتا ہے۔ پہلا قطرہ اپنے تمام ہم سفر قطروں کے ارادوں کا سفیر ہوتا ہے۔ پہلا قطرہ پورے بادل کا دل ہوتا ہے۔ پہلا قطرہ وہ نعرہ ہے جس پر پورا بادل لبیک کہتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہر قطرے کے دل میں پہلا قطرہ بننے کی آرزو موجزن ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن فنا ہونے کا ڈر اسے ہجوم کا حصہ بنے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ گمنامی کے قبرستان میں دفن ہونے کا خوف اسے خود میں محصور رکھتا ہے۔۔۔۔۔ اس لیے وہ اپنے عزم کا بیانیہ جاری نہیں کرتا۔ پہلا قطرہ فنا کے خوف کو تسخیر کر چکا ہوتا
عین اور "عین"
عین ممکن ہےٗ سچ بولنے والا جھوٹا ہو۔ عین ممکن ہےٗ جھوٹ کہنے والا سچا ہو۔ عین ممکن ہے مصلحت سے کام لینے والا اصلاح کا خواہاں ہو۔ عین ممکن ہے سچ کہانی کا مصنف فساد کا فسانہ لکھ رہا ہو۔ عین ممکن ہےٗ میرا مخالف مجھ سے اختلاف کرنے کے باوجود سچا ہو۔ عین ممکن ہےٗ میری رسائی اپنے مخالف کی پارسائی تک نہ پہنچ پائی ہو! کثرت کا ہر ذرّہ وحدت کے کسی جلوے کا امین تو ضرور ہو گا۔ ہر ذرّہ وحدت کا پیمانہ ہے۔ جب تک وحدت آشنائی نہ ہوٗ کثرت کی دنیا میں بزم آرائی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ سخن آرائی بھی رزم آ
جتلایا ہوا احسان
جتلایا ہوا احسان اس طرح ضائع ہو جاتا ہے جس طرح زمین پر گرا ہوا دودھ! احسان ایک آسمانی چیز ہے، اسے زمین پر گرا دیا جائے تو اسکا کچھ مول نہیں پڑتا۔ احسان ایک انمول چیز ہے، اس کا مول لگایا جائے تو انمول نہیں ٹھہرتا۔ جتلایا ہوا احسان خالق اور مخلوق دونوں کی نظر میں بے وقعت ٹھہرتا ہے۔ احسان جتلانا ایک کارِ لاحاصل ہے۔ ہم جس پر احسان جتلاتے ہیں، وہ ہمیں یہ جتلانے میں مصروف ہو جاتا ہے کہ جتلایا ہوا احسان اتنا بھی احسان نہیں تھا جس کا شکریہ مع سود وصول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ درحقیق