عید… اور قربانی!!
جن دنوں راقم کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ( حالیہ یونیورسٹی ) میں زیرِ تعلیم تھا، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم میڈیسن پڑھایا کرتے تھے، ان دنوں تازہ تازہ اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے تھے، آج کل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ڈین ہیں۔ کرونائی موسم میں اکثر چینل انہیں اپنے ٹاک شو میں لیتے ہیں، پروفیسرصاحب کی گفتگو بہت جاندار، ٹھوس اور سائنسی حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں عیدِ قربان کے حوالے سے ایک گفتگو سننے کا اتفاق ہوا، قربانی کے حوالے سے پروفیسر صاحب رائے پیش کر رہے تھے کہ اس سال ہمیں اپنے
دین دار اور دنیا دار!!
محبت کی دنیا کا باسی دنیا کی محبت میں نہیں پایا جاتا۔ محبت کی دنیا روح کی دنیا ہے۔ روحانی شعور سے متصف دیدہِ بینا رکھتا ہے۔۔۔۔۔ وہ دنیا کی دوڑ کو کھیل بچوں کا سمجھتا ہے۔ روح کی دنیا ایثار اور قربانی کی دنیا ہوتی ہے، جسم کی دنیا حاصل اور وصول کی داستان ہے۔ دنیائے اجسام میں گرفتار شعور تجریدی افکار سے محروم ہوتا ہے۔ دین دارشخص دنیا کے فرائض سے غافل نہیں ہوتا۔۔۔۔ دنیا دار دین سے بہرصورت غافل پایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے دنیاوی فرائض بھی اس کی خواہش اور ذاتی پسند ناپسند کے تحت ترتیب
کاروبارِ دنیا اور دنیائے کاروبار!
روحانی دنیا میں مصروف انسان پر گوشہ نشین ہونے کا گمان ہوتا ہے لیکن وہ گوشہ نشین نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ وہ عافیت نشین ہوتا ہے۔ قناعت اور توکل کے سبب اس کا بھروسہ دنیاوی آلات و افکار پر کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح بیرونی دنیا میں اس کی دل چسپی اورمصروفیت قدرے سکڑ جاتی ہے۔ ہماری مصروفیت ہماری دلچسپی کے راست متناسب ہوتی ہے۔ جس دائرے میں ہم دل چسپی رکھتے ہیں، اسی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ کوئی شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ سو، اسی بازارِ دنیا میں دین دار ایک الگ قسم کے کاروبار میں
میزانِ عدل
جس طرح کسی حکومتی قانون کی خلاف ورزی پر حکومتی ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں، اس طرح خدائی قوانین کی توہین پر کائناتی قوتیں متحرک ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔ بے عملی جہالت ہے اور بدعملی توہین!! حکومت مہلت نہیں دیتی، خدائی سلطنت میں مہلت وسیع ہوتی ہے مگر پکڑا سخت!! انسانی حکومت توبہ قبول نہیں کرتی، مالک الملک کی حکومت معافی اور واپسی کا راستہ کھلا رکھتی ہے۔ انسانی عدالت گواہ اور ثبوت کی مدد سے شہادت قلمبند کرتی ہے، خدائی سلطنت میں ثبوت اور شہادت مجرم خود فراہم کرتا ہے۔۔۔۔ زبان کے سوا ہر عضو
دعا۔۔۔ ذریعہ قرب!
دعا مناجات ہی نہیں، حاجات کا حل نہیں، دعا قرب کا ذریعہ اور زینہ بھی ہے۔ دعا سے بے نیاز ہونے والا گویا قرب کی ضرورت سے بے نیاز ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ بندہ اپنے مالک سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بے نیاز ہونے کا حق صرف اسی ذات کو حاصل ہے جو ہر آغاز سے پہلے ہے اور ہر انجام کے بعد تک ہے۔۔۔۔۔ جو تغیر سے پاک ہے۔ دعا بندے اور رب کے درمیان ایک معتبر تعلق ہے۔ رب ہمہ وقت بندے کے قریب ہوتا ہے، لیکن بندہ اپنے رب کی قربت اس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے۔ دعا رب اور بندے کے درمیان ایک
روشنی کی دلیل
سچائی اکثریت کے طے کردہ پیمانوں میں نہیں ملتی۔ ایک اور اکیلا سورج ہزارہا قمقموں پر بھاری ہوتا ہے۔ سچ روشنی ہے۔۔۔۔۔ حقیقی روشنی!! روشنی کی ایک کرن سینکڑوں تاریکیوں پر ایک بھاری دلیل ہوتی ہے۔ دنیا میں اکثریت کا پلڑا بھاری ہوتا ہے اور دین میں سچ کا پلڑا بھاری ہے!! اس دنیا کو دین بنانے کا طریق یہ ہے کہ اکثریت کے شور پر کان دھرنے کی بجائے سچائی کی تلاش کی جائے۔ زندگی میں کم از کم ایک آدمی ایسا ضرور تلاش کر لیا جائے جو سچائی کا نمائندہ ہو۔ سچ تجریدی حیثیت رکھتا ہے، انسان ٹھوس حقیقت
باطن اور باطل!!
باطن سے منحرف باطل کی طرف نکل جاتا ہے۔ باطل کو اپنے مبنی برحق ہونے کا زعم بھی ہوتا ہے۔ ایسا شخص اپنے اور دین کے باطن کو ردّ کرتا ہوا خارج میں کسی انقلاب کا پیامبر بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور یہیں سے خارجی طرزِ فکر جنم لیتا ہے جو موقع ملنے پر مسلح جدوجہد کی تلوار سونت لیتا ہے۔ مسلمانوں کو محرم سے مجرم بنانے والا نکتہ یہی ہے۔۔۔۔۔۔ خود کو اصلاح یافتہ اور باقی عامتہ المسلمین کو گمراہ قرار دینا۔۔۔۔۔۔ اور اپنی تفہیمِ اصلاح بزورِ بازو نافذ کرنا۔۔۔۔۔۔ اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہیے ایسی گمرا
عروجِ مسلم!!
مدعائے تخلیق تسخیرِ کائنات نہیں، تسخیرِ ذات ہے۔ دین ظاہر سے زیادہ باطن اور آفاق سے زیادہ انفس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسلام کا عروج وہ زمانہ نہیں جب اہلِ اسلام محلات اور فتوحات کے دروازے کھولنے میں مصروف تھے، بلکہ وہ دور ہے جب ان کا مدعائے حیات نفس کی تہذیب و تسخیر تھا۔ حصول مال و مملکت عروج کی سند نہیں اور غربت زوال کی دلیل نہیں۔ آفاق میں گم ہو کر مادؔی ترقی کی کسی دوڑ کا حصہ بننا اسلام کی خدمت نہیں۔ آفاق صفات کی جا ہے، انفس جائے ذات!! ہمکلامی ذات سے ہوتی ہےٗ صفات سے نہیں!!
منافقت
منافقت مفاد کے ٹکڑوں پر پلتی ہے۔ لوگ منافقت کا سہارا لیتے ہیںٗ طاقت عزت اور شہرت بچانے کیلئے۔۔۔۔۔۔۔ اور منافقت ہی طاقت اور عزت سے محروم کر دیتی ہے۔ منافقت کا لباس کسی منفعت کی لالچ میں پہنا جاتا ہے۔۔۔۔ اور منافقت ہی بے لباس کر دیتی ہے۔ صداقت سے فرقت کا المیہ منافقت ہے۔ وحدتِ خیال میں داخل ہونے کا اذن صرف صداقت کو حاصل ہے۔۔۔۔۔ منافقت وحدتِ خیال سے محروم ہوتی ہے۔ صداقت رسوا بھی ہو جائے تو حلقہِ صداقت میں معتبر ہے۔۔۔۔۔۔ منافقت سرفراز بھی ہو جائے تو دوستوں کی نگاہ میں سرنگوں ہے۔
محبت اور قانون
محبت اور قانون میں کوئی بَیر نہیں۔۔۔۔۔ اَسیرِ محبت کو قانون کی بیڑی پہنانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔ کہ محبت مشیت آشنا ہوتی ہے۔ قانون رات کے اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا۔ قانون گواہ کی موجودگی کے بغیر معطل ہے۔ قانون ضمیر کے مجرم کو سزا نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔ یہ عدم شہادت کی بنا پر مجرم کو بری کر سکتا ہے اور جھوٹے گواہوں کی موجودگی میں کسی بے گناہ کو شہید کر سکتا ہے۔ قانون تزکیہ نہیں کرسکتا۔۔۔۔ ایک انسان قانون کے دائرے کے اندر رہ کر بھی ظالم ہو سکتا ہے۔ قانون ایثار اور احسان کا حکم جاری نہ