آفاق اور انفس
آفاق اور انفس دوعلیحدہ حقیقتیں ہیں۔ انفس کے کلیات آفاق پر اور آفاق کے فارمولوں کا اطلاق انفس پر کرنا روح اور جسم کو گڈمڈ کرنے کے برابر ہے۔ آفاق انفس کے مقابلے محدود ہے، کہ پابندِ زمان و مکاں ہے۔ انفس آفاق سے زیادہ قدیم اور عالمِ امر کے زیادہ قریب ہے۔ امر براہِ راست تابعِ مشیت ہے، عالمِ خلق میں واقعات کو اسباب اور نتائج کی چھلنی سے طے شدہ کلیات کے مطابق گزرنا ہوتا ہے۔ بیرونی دنیا کا نظم و نسق چلانے کیلئَے خالق و مالک نے جو کائیناتی کلیات تخلیق کیے ہیں اس میں ترمیم یا مداخلت
محبتوں کے قافلے
محبت پر معترض وہی ہوتا ہے جو محرومِ محبت ہو۔ جو مبتلائے محبت ہو اسے ابتلائے محبت کی خبر ہوتی ہے۔ عقیدت بھی یکے از محبت ہے۔ دوسروں کی عقیدت کا احترام وہی کرے جو کسی کا معتقد ہو گا۔ آزاد شتر بے مہار ، آزادی اظہار کے گمان میں گرفتار دوسروں کی محبت اور عقیدت کا مضحکہ اڑاتے ہوئے ایک ذہنی تسکین اور برتری محسوس کرتا ہے۔ محبت میں کوئی تقابل نہیں، کوئی محبوب چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، محبوب کا قد کاٹھ صفات کے پیمانوں سے نہیں ماپا جاتا۔ محبوب اور محبت کی قدر کی جاتی ہے، قیمت نہیں پوچھی جات
منظر اور پس منظر
اگر کسی کی آنکھوں میں بیٹھ کر وہی منظر دیکھ لیا جائے جو منظر اس کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ تو خدا کی قسم اعتراض اٹھانے والا ہاتھ شل ہو جائے، اعتراض لکھنے والا قلم ہاتھ سے گر جائے اور اعتراض بولنے والی زبان گنگ ہو جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنے منظر کے مطابق عین درست دیکھتا ہے، وہ اپنے منظر کے ارتعاش کے مطابق عین درست سن رہا ہے۔ انسانی تعلقات کے باب میں ہر شخص کا منظر اس کے درجہِ علم، مرتبہِ شعور اور وسعتِ ظرف کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے۔ ہر شخص کی غلطی دراصل ہمارے اپن
فقیر اور فقر
فقیر پر اعتراض کیا جائے تو فقر ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ فقیر مجسم فقر ہوتا ہے۔ فقر اگر تجرید ہے تو فقیر اس تجرید کی تجسیم کی کوئی صورت ہے۔ جہاں تجیسم اور تجرید کی سرحدیں باہم تحلیل ہونے لگیں وہ مقامات شعائر کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں۔ شعائر اللہ کی تعظیم تقویٰ کی نشانی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور توہینٗ محبت سے تہی دست ہونے کی علامت ہو گی۔ جو مسافر جس منزل کا راہی ہوتا ہے اس منزل کی طرف جانے والے مسافروں کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ طالبِ دنیا اپنے سے زی
مزاج میں تفاوت
مزاج میں تفاوت کو تعلقات کی دنیا میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔۔ مزاج میں خلیج محبت سے ختم کی جا سکتی ہے۔ مزاج کے مختلف ہونے پر اختلاف لازم نہیں آتا۔ جو شخص بر بنائے مزاج اختلاف کرتا ہے وہ درحقیت اپنے مزاج کے اسیر ہونے کی فریاد کرتا ہے۔ اگر کوئی چھوٹا ہے تو مزاج کا اختلاف شفقت کی شیرینی میں چھپایا جا سکتا ہے۔ ہم مرتبہ ساتھی کے ساتھ باہمی احترام کے کلیے سے اختلاف کو اتفاق میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ عمر اور مقام میں بڑی شخصیت کے ساتھ عزت کا رشتہ برقرار رکھا جائے تو مزاج میں دُوری
وجود اور خیال
خیال کے بغیر وجود ایک مٹی کا ڈھیر ہے۔۔۔۔۔ اور وجود کی گواہی کے بغیر خیال محض ایک فلسفہ و علم الکلام ہے۔ وجود کی گواہی خیال اور عمل کی ہمراہی سے میسر آتی ہے۔ اگر خیال وجود کا حصہ نہیں بنتا تو قصہ ماضی بن جاتا ہے۔ وجود حال ہے اور خیال کا خزانہ ماضی سے تعلق رکھتا ہے۔ ماضی کو حال سے ملانے والی چیز وجود کی گواہی ہے۔ جب خیال کسی پر مہربان ہوتا ہے تو اسے صاحبِ خیال بنا دیتا ہے۔ صاحبِ خیال وہ صاحب ہوتا ہے جس کے وجود سے خیال کی لَو لپک لپک کر باہر آرہی ہو۔۔۔۔۔۔۔ جس کا حال اس کے قال پ
لفظ اور لہجہ!
لہجہ نیت کا غماز ہوتا ہے۔ لہجہ لفظ کا راز کھول دیتا ہے۔ لفظ لاکھ مہذب ہو، غیر مہذب لہجہ عبارت کو عریاں کر دیتا ہے۔ دل میں جھپنے ہوئے حسد، نفرت اور بغض۔۔۔۔ لہجہ سب کا راز اگل دیتا ہے۔ الفاظ کتنے ہی پارلیمانی کیوں نہ ہوں، لہجے کا کھردرا پن جملے کو بازاری سطح پر لا کھڑا کرتا ہے۔ لہجے کی کاٹ وہی محسوس کر سکتا ہےٗ جسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لفظ تلوار کی مانند ہے اور لہجہ اس تلوار کی دھار ہے۔۔۔۔۔ یہ تلوار کی دھار ہے جو فیصلہ کرتی ہے کہ وار کہاں تک جائے گا۔ لہجہ ہمارے لفظ کے باطن کی خ
آئیڈیل اور آئیڈیلازیشن!
آئیڈیل ایک تمثیل کی مثل ہے۔۔۔۔۔۔ کسی تمثیل سے سبق اخذ کرنا ہر شخص کے اندازِ فکر اور افتادِ طبع پر منحصر ہے۔ اصل اور مثال میں فرق کم کرنے کی تمنا ہی سفر کا اصل ہے۔ تصویر کا تصور تصویر نہیں ہوتا، لیکن اپنے تصور کو مکمل کرنے کی جستجو ہمیں مکمل کر دیتی ہے۔ آئیڈیل ہر شخص اور شعور کا جدا جدا ہوتا ہے۔ ہمارا ہیرو ہمارے دشمن کے ہاں ولن کے طور پرجانا جاتا ہے۔ ہمارے دشمن کا دشمن ہمارا دوست ہے۔ دنیا دار کی نظر میں درویش ایک ناکام شخص ہے، درویش کی نگاہ میں دنیا دار نامراد تصور ہوتا ہے۔
اعتراض نما سوال
اعتراض نما سوال دراصل سوال نما اعتراض ہوتا ہے۔ معترض اپنے کسی فکری الجھاؤ کا سلجھاؤ نہیں چاہتا بلکہ وہ مدّ مقابل کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے۔ سوال کے پردے میں مضمون کی عبارت پر اعتراض کرنے والا بالآخر نفسِ مضمون سے اعراض کرتا ہوا پایا جائے گا۔ معترض جب تک معترف نہ ہو جائے کسی سوال کا جواب شافی اور کافی نہ ہو گا۔ سب سے بڑا سوال تسلیم اور تشکیک کی سرحد پر پیدا ہوتا ہے۔۔۔ اور یہ سوال حل کرنا سائل کے اپنے ذمے ہے۔ جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتاٗ سب سوالات بحث برائے بحث کا عنوان ہیں۔ علم
آسائش اور سکون!
سکون وحدت کا منظر ہے۔ وحدتِ افکار سکون سے روشناس کرتی ہے۔ وحدتِ کردار وادیِ سکوں کی سیر کرواتی ہے۔ وحدتِ افکار قابلِ دید ہوتی ہے، وحدتِ افکار قابلِ تقلید! وحدتِ کردار سکون کی دولت دان کرنے کی قدرت عطا کرتی ہے۔ ہر شخص وہی کچھ دینے کی قدرت رکھتا ہے جو اس کے پاس موجود ہو۔ سکون کا راہی آسائش نہیںٗ آسانی مانگتا ہے۔ اگر سکون اور آسائش دونوں عنقا ہوں تو آسائش سے پہلے سکون کی دعا کرنی چاہیے۔ سکون مل جائے گا تو آسائش کی طلب نہ رہے گی۔ آسائش نے بغیر سکون کے گھر کا رستہ دیکھ لیا تو سکون