لبرل تعصب!!
کچھ لوگ خود کو لبرل کہتے ہیں لیکن متعصب اس قدر ہوتے ہیں کہ دینی اقدار اور روایات کا مضحکہ اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لبرلزم اور سیکولر کی اگر ان کے اصرار پر وہی نرم اور بے ضرر تعریف کر لی جائے تو بھی یہ اس پر پورا نہیں اترتے۔ اگر کوئی قدامت پسند کسی لبرل کے ابا جان کے لباس کی تراش خراش کا ٹھٹھا اڑائے تو کیا اس فارمولے کے تحت یہ برداشت کیا جا سکتا ہے کہ ہر شخص کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے؟ دین محض کوئی فلسفہ یا نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک زندہ وجود ہے، یہ اپنی اقدار
پہلا قطرہ
پہلا قطرہ حوصلے کا قلزم ہوتا ہے۔ پہلا قطرہ اپنے تمام ہم سفر قطروں کے ارادوں کا سفیر ہوتا ہے۔ پہلا قطرہ پورے بادل کا دل ہوتا ہے۔ پہلا قطرہ وہ نعرہ ہے جس پر پورا بادل لبیک کہتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہر قطرے کے دل میں پہلا قطرہ بننے کی آرزو موجزن ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن فنا ہونے کا ڈر اسے ہجوم کا حصہ بنے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ گمنامی کے قبرستان میں دفن ہونے کا خوف اسے خود میں محصور رکھتا ہے۔۔۔۔۔ اس لیے وہ اپنے عزم کا بیانیہ جاری نہیں کرتا۔ پہلا قطرہ فنا کے خوف کو تسخیر کر چکا ہوتا
عین اور "عین"
عین ممکن ہےٗ سچ بولنے والا جھوٹا ہو۔ عین ممکن ہےٗ جھوٹ کہنے والا سچا ہو۔ عین ممکن ہے مصلحت سے کام لینے والا اصلاح کا خواہاں ہو۔ عین ممکن ہے سچ کہانی کا مصنف فساد کا فسانہ لکھ رہا ہو۔ عین ممکن ہےٗ میرا مخالف مجھ سے اختلاف کرنے کے باوجود سچا ہو۔ عین ممکن ہےٗ میری رسائی اپنے مخالف کی پارسائی تک نہ پہنچ پائی ہو! کثرت کا ہر ذرّہ وحدت کے کسی جلوے کا امین تو ضرور ہو گا۔ ہر ذرّہ وحدت کا پیمانہ ہے۔ جب تک وحدت آشنائی نہ ہوٗ کثرت کی دنیا میں بزم آرائی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ سخن آرائی بھی رزم آ
جتلایا ہوا احسان
جتلایا ہوا احسان اس طرح ضائع ہو جاتا ہے جس طرح زمین پر گرا ہوا دودھ! احسان ایک آسمانی چیز ہے، اسے زمین پر گرا دیا جائے تو اسکا کچھ مول نہیں پڑتا۔ احسان ایک انمول چیز ہے، اس کا مول لگایا جائے تو انمول نہیں ٹھہرتا۔ جتلایا ہوا احسان خالق اور مخلوق دونوں کی نظر میں بے وقعت ٹھہرتا ہے۔ احسان جتلانا ایک کارِ لاحاصل ہے۔ ہم جس پر احسان جتلاتے ہیں، وہ ہمیں یہ جتلانے میں مصروف ہو جاتا ہے کہ جتلایا ہوا احسان اتنا بھی احسان نہیں تھا جس کا شکریہ مع سود وصول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ درحقیق
سادگی۔۔۔۔ ایک سچائی!!
سادگی سچائی ہے۔۔۔۔۔ دکھلاوا اک بہلاوہ ہے۔ سادگی صدق ہے، تصنع کذب۔ سادگی میں عجز ہے۔۔۔۔ تصنع فخر سے پُر ہے۔ سادگی میں وقار ہے، تصنع میں استکبار!! سادگی میں شائستگی ہے، تصنع ریشم میں بھی لپٹا ہو تو اس کا کھردرا پن صاف محسوس ہو جاتا ہے!! سادگی میں حسن ہے۔۔۔۔۔ تصنع کسی بدصورتی کو چھپانے کا جتن ہے۔ سادگی عام و خاص میں یکساں آسانی سے گزر جاتی ہے۔ تصنع عامی ہونے سے گریزاں ہے، لیکن عامیانہ پن سے خالی نہیں۔ سادگی عالی نسب، عالی فطرت لوگوں کا شعار ہے۔ تصنع نودولتیوں کی دولتیاں ہیں۔
تعلق۔۔۔۔۔ ایک شجرِ سایہ دار!!
مفادات پر مبنی تعلقات ذاتی نہیں ہوتے، کاروباری ہوتے ہیں۔ کاروباری تعلقات استوار ہوں یا مسمارٗ ان سے ہمیں کوئی علاقہ نہیں۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان میں جذبات اور احساسات کی سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔ انسانی تعلقات قلبی تعلقات ہوتے ہیں۔ انسانی تعلقات دل کے ایک ساتھ دھڑکنے سے شروع ہوتے ہیں اور جب تک دل رک نہ جائے جاری رہتے ہیں۔ تعلقات کوئی فائل نہیں جسے نپٹا کر رکھ دیا جائے۔ تعلقات مسلسل نگہداشت چاہتے ہیں۔ تعلق ایک نوخیز کونپل کی طرح پھوٹنا ہے، نمو پاتا ہے اور پروان چڑھتا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے ک
بے ادبی۔۔۔۔۔۔۔ بے تمیزی اور بے ہودگی
بے ادبی۔۔۔۔ ادب کے خیال سے باہر ہونے سے شروع ہو جاتی ہے۔ ایک مودب خیال بے مروت ہونے لگے تو سمجھیںٗ بے ادبی ہو گئی۔ بے ادب آدمی درپردہ اپنی شناخت بدلنے کے درپے ہوتا ہے۔ ہماری شناخت ہمارا ادب ہے، ہم جہاں باادب رہنے میں سعادت محسوس کرتے ہیںٗ وہی جا ہماری پہچان کا عنوان بنتی ہے۔ بے ادب ہونے سے سعادت شقاوت میں بدل جاتی ہے۔ تمیز کی نشست گاہوں میں نشست و برخاست بے ترتیب کرنے کا جتن بے تمیزی کہلائے گا۔ بے ادبی اور بے تمیزی کے بعد بدتمیزی شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ اور بد تمیزی کے بعد بے ہودگ
احساسات، جذبات اور تعلقات
انسانی تعلقات کی بِنا احساسات اور جذبات پر اٹھائی گئی ہے۔ جذبات اور احساسات کے بنا تعلقات بیوپار ہیں۔۔۔۔۔۔ لین دین کے گوشوارے ہیں۔تعلقات کی دنیا میں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کیا جائے تو تعلقات عمرِ خضر پاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ سدا بہار سرسبز و شاداب رہتے ہیں!! تعلقات کی دیوار میں دراڑ تب رونما ہوتی ہے جب ہم اپنے متعلقین کے جذبات کو اپنی بے حسی کی کدال سے مسمار کرتے ہیں۔ دیواریں مضبوط ہوں تو سہارا بنتی ہیں، کمزور ہوں تو اپنے ہی بوجھ سے گرنے لگتی ہیں۔ جذبات کی دنیا میں شاہ و گدا سب
نعمتیں احسان ہیں۔۔۔۔۔ استحقاق نہیں
لذاتِ وجود میں مبتلا ہونے والا اپنے وجود کے خزانے میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ دراصل وجود اور وجود میں موجود تمام وسائل ہمیں بطور نعمت عطا کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ہماری محنت کے بغیر۔۔۔۔۔ ہماری کسی ذاتی تدبیر کے دخل سے یکسر بے نیاز!! عزت، دولت شہرت سمیت سب نعمتوں کا حکم یہی ہے۔۔۔۔۔۔ نعمت ایک احسان ہے۔۔۔۔۔۔ استحقاق نہیں! اگر مکمل دیانتداری سے کبھی اپنی محنت، عقل اور تدبیر کے گوشوارے مرتب کیے جائیں تو ان سب کا حاصل جمع ہمیں اپنی حاصل شدہ نعمتوں کے مقابلے میں حقیر نظر آئے گا! نعمتوں کا
بیداری۔۔۔۔۔ نیند کی آغوش میں
انسان کی بیداری اس کی نیند کی آغوش میں ہے۔۔۔۔۔۔ بیداری کے لمحات اس کی نیند سے مستعار لیے ہوئے ہیں۔ اس کی نیند کے عوض اسے دن کا کچھ حصہ بیداری کی حالت میں گھومنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بیداری کی حالت میں انسان خود کو آزاد سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن چوبیس گھنٹے سے بھی کم عرصے میں نیند اسے دبوچ لیتی ہے۔ انسان اتنا بھی آزاد پیدا نہیں کیا گیا کہ اسے نیند سے آزاد کر دیا جائے۔ نیند آزادی کے سلب ہو جانے کا عرصہِ حیات ہے۔ نیند کی نیلم پری اپنی جادوئی چھڑی سے ہر روز اس کی آزادی چھین لیتی ہے