اہلِ جماد!!
جمادات اپنی تمام تر حرکت کے باوجود جامد کہلائیں گے۔ اس لئے جمادات میں مشغول شخص کتنا ہی متحرک نظر آئے، جمود کا شکار ہوتا ہے۔ جمادات جگہ گھیرتی ہیں، وزن رکھتی ہیں اور کششِ ثقل کی علت پر من و عن عمل کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہی حال جمادات کے پیچھے لپکنے والوں کا ہے۔۔۔۔۔ وہ ہر جگہ جگہ ہی گھیریں گے، دلیل کے بغیر خود کو با وزن باور کروائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ زمین پر بوجھ ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔ ثقیل ہونے کے سبب!! جمادات پر جم جانے والے فکری طور پر متحرک نہ ہو سکیں گے۔۔۔۔۔ ثقل کی کشش کے باعث!! جمادا
جشنِ سالِ نَو !!
یوں تو انسانی تاریخ اور تہذیب میں بہت سے تہوار ایسے ہیں جنہیں احمقانہ کہا جا سکتا ہے، لیکن نیا سال منانے کا تہوار بجا طور پر عالمی سطح کا ایک احمقانہ پن ہے۔ بلاتخصیص مشرق و مغرب ہر قوم رات کے سمے گھڑیوں کی ٹک ٹک دیکھ کر ایسے مبہوت ہوئی چلی جاتی ہے جیسے آدھی رات کو سورج کے طلوع ہونے کی اطلاع ہو۔۔۔۔ اور پھر یکلخت پھلجھڑیوں اور مبارکبادوں کا ایسا سلسلہ کہ رکنے میں نہ آئے۔ انسانی شعور کی اپنی ہی گھڑی ماہ و سال کی تقویم پر ہندسے بدلنے کا جشن؟ چہ معنی دارد؟؟ کیلنڈر کے ہندسے بدلنے م
اطاعت اور معرفتItaat aur marifat
اطاعت بر وقت اور ہر وقت اطاعت کا نام ہے۔ بر وقت حکم نہ ماننا یکسر حکم نہ ماننے کے برابر ہو سکتا ہے۔ جس طرح انصاف میں تاخیر ناانصافی سے تعبیر ہے اس طرح حکم کی بجا آوری میں تاخیر بھی حکم عدولی کا باب ہے۔ حکم وصول ہونے کے بعد اس کی تعمیل میں مناسب وقت کا انتظار کرنے والا دراصل اس حکم میں اپنے نفس کی رائے بھی شامل کرتا ہے۔ حکمت جاننے کے بعد حکم ماننا ایک مشورہ ماننے کے برابر ہے۔ اطاعت بابِ تسلیم ہے۔ جبری اطاعت مطلوب و مقصود نہیں۔ ہماری قولاً اور کرھاً عبادت اطاعت کا محض اظہ
مہمان اور سائلMehman aur saiil
اپنے رزق میں برکت شامل کرنے کا طریق یہ ہے کہ اپنے دسترخوان میں مہمان شامل کر لیے جائیں۔ اپنے مسائل کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کے مسائل حل کرنا شروع کر دیئے جائیں۔ دوسروں کے مسائل پر توجہ دینے والا اپنے مسائل از خود حل شدہ حالت میں پاتا ہے۔ اپنے گھر اور دل کے دروازے کھول کر چشم براہ رہنا چاہیے۔ مہمان کی صورت میں سائل بھی آسکتا ہے۔ مہمانوں کی تکریم کرنے والا خود مکرم ہو جاتا ہے۔ مہمان کا انتظار کرنے والا سخی ہوتا ہے۔ جس کے دروازے سے مہمان ناراض ہو کر چلا جائے اس پر اور
بندہِ مزدور کے اوقات!!Banda-e-Mazdoor ke auqat
مزدور کو اس کے کام کی مزدوری ملنی چاہے۔۔۔۔۔۔۔اس کی عزت نفس کا معاوضہ نہیں! ہمارے ہاں جب کسی کو ملازم رکھا جاتا ہے تو اس کی عزتِ نفس کے تمام حقوق بھی گویا خرید لیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کے ساتھ ہمارا معاہدہ مخصوص مدت اور مخصوص کام کیلئے ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ اس کے تمام حقوق ہمارے برابر ہیں۔ کاموں میں گالم گلوچ کا کلچر پروان چڑھانے میں ہمارے غصے کا ہاتھ زیادہ ہے اور ملازم کی کام چوری اور چوری چکاری کا کم! کسی نظام کی خرابی میں بااثر آدمی کا حصہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جتنا وہ
نیکی کر دریا میں ڈال!Neki kar derya me dal
دریا میں ڈالی گئی نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ ایسی نیکی موسٰی کی طرح ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے دریا میں ڈال دیا جائے تو نکال لیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ وقت کے دریا میں چلتے ہوئے فرعونِ وقت کے محل کے اندر تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بے نام نیکی نظامِ باطل میں پل کر جوان ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔اور کوئی شیعبِ زمانہ میسر آجائے تو شبانی سے کلیمی میں بدل سکتی ہے۔۔۔۔۔ کسی طور پر سرفرازِ نور ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور جلوہ گاہ سے واپسی کے سفر میں فرعونی نظام کو لپیٹ کر اسے سپردِ نیل کر دیتی ہے۔ خالص ترین نیکی
ملامت زدہ خدمت Malamat zda khidmat
وہ خدمت جو ملامت زدہ ہوتی ہے، سب سے مقبول ہوتی ہے۔ ستائش والی خدمت ملاوٹ زدہ ہوتی ہے۔ صرف سَچّی محبت اور سُچّی خدمت ہی کوئے ملامت سے گزر سکتی ہے۔ ملامت سے گزرنا اپنی انا کو خاک آلود ہوتے دیکھنا ہے۔۔۔۔ اس امتحان میں جو سرخرو ہو کر نکلتا ہےٗ وہی خدمت کیلئے مامور کیا جاتا ہے۔ خدمت صرف پیسہ خرچ کرنے سے نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ بلکہ پورا وجود خرچ کرنے سے ہوتی ہے۔ خدمت خلق کی سعادت جنہیں عطا ہوتی ہےٗ وہ اسے ایک آسمانی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔ ستائش زدہ خدمت سیاست کا باب ہوتی ہے یا پھر
اَنا کا پلاسٹر آف پیرسAna ka plaster of paris
رابطوں میں عدم توازن تعلقات کو غیر متوازن کر دیتا ہے۔ ہمیں اپنی خواہش اور ضروررت سے زیادہ دوسروں کی تمنا اور ضرورت کے مطابق ان سے رابطے برقرار رکھنا چاہیے۔ اپنے لیے جینے اور دوسروں کیلئے جینے میں یہی فرق ہے۔ دوسروں کیلئے جینے والا کبھی نہیں مرتا۔ رابطوں میں فقدان اور عدم توازن کا تعلق تعلیم اور شعور کی کمی سے نہیں بلکہ اَنا اور خود غرضی کی زیادتی سے ہے۔ خود غرض انسان صرف اپنی غرض کے تعلقات بڑھائے گا اورجب اور جہاں غرض پوری ہو جائے گی وہاں سے تعلقات کا خیمہ اکھاڑ کر دُور لے ج
شکر سے غافل Shukr se ghafil
شکر سے غافل انسان نعمتوں سے متمتع نہیں ہو سکتا۔ نعمتوں کا موجود ہونا الگ چیز ہے اورنعمتوں سے سرفراز ہونا ایک الگ داستان ہے۔ یہ داستان اس کیلئے ہزار داستان بنے گی جو کلمہِ شکر سے متصف ہوگا۔ شکر محض زبانی کلامی جملہ سازی نہیں بلکہ ایک احساس کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکر ایک طرزِ فکر بھی ہے اور طرزِ عمل بھی!! جو سجدہِ شکر ادا نہیں کرتا، اسے سجدہِ سہو کرنا پڑتا ہے۔ شکر کے احساس تک پہنچنے کیلئے اپنی خواہش کے حصار سے باہر نکل کر زندگی کو ایک نظر دیکھنا ہوتا ہے۔ مزید کی ہوس موجود کی را
اعتبارِ انسانیت!! Aitebar-e-Insinayet
وعدہ لفظوں پر مشتمل ایک معاہدہ ہے۔ ایک انسان چند الفاظ کہتا ہے، دوسرا ان پر اعتبار کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ معاشرہ ایک بندھن میں بندھ جاتا ہے۔ لفظوں پر اعتبار کرنا اعتبارِ انسانیت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعتبار نہ کرنا توہینِ انسانیت ہے۔ وعدہ خلافی اعتبارِ آدم کی توہین ہے۔ وعدہ خلاف لفظوں کا تقدس مجروح کرتا ہے۔ انسان ظاہری طور پر ان لفظوں سے پہچانا جاتا ہےٗ جنہیں وہ ادا کرتا ہے اورباطنی طور پر ان لٖفظوں سےٗ جن کا وہ پاسِ ادب کرتا ہے۔ لفظوں کی پاسداری صاحبِ کردار ہونے کی علامت ہے۔ انسان خود سے بھی