top of page

Khair se mehroom khairat – Weekly Coloumn(7June 2017)

صدقہ ، خیرات اور زکوٰة کے نام پر کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہیں۔ رمضان کا مہینہ آتے ہیں زکوٰة کے اُمیدوار اِدارے مارکیٹنگ کے تمام لوازماتِ ہنر کے ساتھ میدان میں آ جاتے ہیں۔ ٹی وی ، ریڈیو تو ایک طرف‘ شہر بھرمیں ہر طرف بڑے بڑے اشتہاری بل بورڈ”زکوٰة ہمیں دیجئے“کے عنوانات سے بھر جاتے ہیں…. یہ لیجئے فوٹو بھی حاضر ہے….بڑے بڑے فنکاروں کا چھوٹے چھوٹے بیمار اورغریب بچوں کے ساتھ فوٹو سیشن ہر کھمبے کے ساتھ لٹک رہا ہے ۔اس اشتہار بازی کیلئے بڑی بڑی اشتہاری کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان دیوقامت بل بورڈز پر اتنی مہنگی مارکیٹنگ کا بل بھی اُسی زکوٰة سے ادا کیا جائے گا جو جمع کی جارہی ہے!! حیرت ہے ٗ تقسیم ہونے والی چیز جمع ہو رہی ہے!! یہ عجب مذاق ہے ‘ ہم نے دین کو کاروباربنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ عجیب دھندا ہے کہ ایک سرمایہ دار اپنی ہی زکوٰة سے چند لاکھ خرچ کر کے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھتا ہے اور پھراسی ادارے کو اپنے سرمایہ دار دوستوں سے کئی ملین اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ خاموش خدمت شاید قصہِ پارینہ ہوتی جا رہی ہے۔ دوستیاں پَل رہی ہیں ، زکوٰة ایک دوسرے کے ادارے کو دی جارہی ہے اور زکوٰة کے چیک کاٹ کر سماجی تعلقات اور قد کاٹھ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ حال یہ ہے کہ اسی سرمایہ دار کے ہاں کام کرنے والے سینکڑوں مزدور زکوٰة کے مستحق ہیں …. وہ انہیں مارکیٹ ریٹ کے مطابق ٹریٹ کر رہا ہے ….اور زکوٰة کے پیسے اپنے دوستوں کے فلاحی اداروں میں جھونک رہا ہے۔ اداروں کو زکوٰۃ دینے سے حاجی صاحب کو دہرا فائدہ نظر آتا ہے ، “تو مرا حاجی بگو ٗ من ترا حاجی بگوئم” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ ٹیکس ریبیٹ بھی ملتی ہے ، گویا “آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام”۔

ادارے بنانا بجا ، بے حد ضروری ، ازحد مستحسن ….لیکن اس کی قیمت زکوٰة کے پیسوں سے تو ادا نہ کریں۔ معاشرتی فلاحی کام ضرور کریں لیکن اپنے پلے سے پیسہ خرچ کریں ‘ اور کریں۔ زکوٰة غریبوں ، سفید پوشوں اور مستحق افرادکا حق ہے…. اور یہ حق انہیں اللہ کریم نے دیا ہے۔ زکوٰة فرد کی فرد کے ساتھ نیکی کی ایک خوبصورت داستان ہے۔ اسے اداروں کے سپرد کردینے سے فرد کا فرد کے ساتھ ربط اور رابطہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ اداروں میں افراد کو نہیں پالیسیوں کو دیکھا جاتا ہے۔ زکوٰة کا مصرف کوئی ادارہ نہیں‘ فرد ہے۔ دینی مدارس اور مساجد بھی زکوٰۃ کے مصارف ہرگز نہیں ہیں لیکن آفرین ہے نکتہ آفرینی میں ماہر منتظمینِ مدارس پر ، جنہوں نے اپنے اداروں میں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے شرعی حیلے کے نام پر ہر طرح کے غیرشرعی حیلے ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک اپنے ٹی وی چینل کیلئے زکوٰۃ مانگ رہا ہے، جواز یہ کہ چین ہی چین لکھنے والا یہ چینل “فی سبیل اللہ”دین کی تبلیغ کررہا ہے۔ قرآن کریم میں صدقات کے آٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں ، وہ سب کے مصارف زکٰوۃ کے نہیں۔ زکٰواۃ و فطرانہ صدقاتِ واجبہ ہیں ، زکوٰۃ اور فطرانے کے مصارف بھی مخصوص ہیں، مثلاً زکٰوۃ اور فطرانہ غیر مسلم کو نہیں دی جاتی ، جبکہ دیگر صدقات (صدقاتِ نافلہ) غیر مسلموں کو بھی دیئے جا سکتے ہیں۔ زکوٰۃ کا اصول یہی ہے کہ اس میں فرد کو مالک بنایا جاتا ہے۔ زکوٰہ فرد کو دی جاتی ہے ، ادارے کو نہیں۔ مستحق افراد کو ڈھونڈھنے کا عمل زکوٰة دینے کے عمل کا حصہ ہے۔ اپنے آس پاس ضرورت مند چہروں کو تلاش کرنے کا عمل ہماری اخلاقی تربیت کرتا ہے۔ اس تربیت سے وہ شخص محروم رہ جاتا ہے جو رمضان کی پہلی تاریخ پر کسی ادارے کے نام چیک لکھ کر ایک منٹ میں فارغ ہوجاتا ہے۔ دراصل اداروں کی تشکیل ، انتظام اور انصرام بنیادی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ صد افسوس ‘ اب حکومتی ادارے بھی زکوٰة کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح ایک گھر میں پیدا ہونے والے بچے کو بن مانگے تعلیم ، علاج اور خوراک مہیا کی جاتی ہے ، اس طرح ریاست اپنی حدود میں پیدا ہونے والے ہر شخص کے علاج ، تعلیم اور خوراک کی کفالت کا ذمہ لے۔ ملاوٹ سے پاک اشیائے خورد ونوش مہیا کرنا ریاست کی ذمے ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ ایک عام کی قوتِ خرید بلند کرے یا کھانے پینے اور رہائش کی قیمت کم کرے۔ تعلیم اورعلاج کی سہولت بلامعاوضہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ پرائیوٹائزیشن کے نام پر اپنی ذمہ داریوں سے فرار ناکام حکومتوں کا طریق ہے۔ جب نالائق حکومتیں اپنے اللّوں تللّوں اور نمائشی منصوبوں میں بجٹ ضائع کر دیتی ہیں تو لامحالہ فلاحی کاموں سے ہاتھ لیتی ہیں۔ ایسے گھٹاٹوپ ماحول میں معاشرے کے اہلِ دل لوگ اٹھتے ہیں اور اِن کاموں کا بیڑہ خود اُٹھا لیتے ہیں۔ ایسے اہلِ خیر اور مخیر قابلِ صد تکریم و احترام ہیں۔ گذارش فقط یہ ہے کہ اداروں کو اپنی جیبِ سخاوت سے چندہ دیجئے ، زکوٰة کی مدّ سے نہیں۔ زکوٰة اور چندے میں فرق ہے۔ زکوٰة اُن غریبوں کا حق ہے جنہیں نوکری نہیں ملتی ، اگر نوکری مل جائے تو معاوضہ نہیں ملتا، جن کے پاس باعزت طریقے سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے وسائل اور وسیلہ نہیں ملتا۔ ان کی آدھی تنخواہ واپڈا کا میٹر لے جاتا ہے اور باقی ماندہ مالک مکان۔ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں تو علاج کے پیسے نہیں بچتے ، گھر میں کوئی بیمار پڑجائے تو دوا ‘غالب کی مئے کی طرح ٗ قرض کی لا کر پیتے ہیں…. درد کی دَوا اور پھر دردِ لادَوا کا مفہوم اِن پر خوب کھلتا ہے لیکن ان کی طبیعت نھے زیست کا مزہ نہ پایا کہ غم ِ جاناں کی جگہ کوچہِ غم دوراں کے طواف میں ان کی صبح سے شام ہوتی ہے ….اور زندگی یوں ہی تمام ہوجاتی ہے! بینکوں میں پڑے پیسوں سے زکٰوۃ اکٹھی کر کے بیت المال قائم کرنے سے غریب عوام کو اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا غریب عوام کے نمائندوں نے فایدہ اٹھایا ہے۔ پہلے وقتوں میں گورنمنٹ کا واحد ٹیکس زکٰوۃ ہوا کرتا تھا، اور اس کو اکٹھا کرنے کی جگہ کو بیت المال کہا جاتا ہے، جیسے آج کل گورنمنٹ کے تمام ٹیکس سٹیٹ بینک میں جمع ہوتے ہیں۔ “بیت المال” کوئی مقدس اصطلاح تو نہیں ہے جس کے “قیام” کیلئے حکومت کو لوگوں سے زکٰوۃ اکٹھی کرنا پڑے۔ عوامی فلاحی کام حکومت اپنی دیگر مدات میں عاید کیے ہوئے ٹیکسوں سے کرے۔ غریب کی فلاح و خدمت دنیا کی ہر حکومت کا فرض ہے ، حکومتی خزانے کو سہارا دینے کیلئے یہاں زکٰوۃ کیوں طلب کی جاتی ہے۔ اگر ہر امیر شخص اپنی زکوٰة کی رقم اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کرنے کا حوصلہ پیدا کر لے تو چند سالوں میں بے شمار خاندانوں کی غربت ختم ہو جائے گی۔ معاشرے میں افراد کے تعلقات کی بُنَت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ ایک امیر کے ارد گرد بہت سے غریب پائے جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خاندان کوئی غریب نہ پایا جائے۔ امیر لوگ غریب رشتہ دار کو اپنارشتہ دار تسلیم کرنے سے انکار دیتے ہیں اور غریب اپنے امیر رشتہ دار کے دروازے پر دستک دینے سے گھبراتے ہیں۔ اسلئے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس امیر خاندان میں دُور دُور تک کوئی غریب پیدا ہی نہیں ہوا۔ خاندانی امیر بھی اکثرغریب پائے گئے ہیں…. اور غریب بھی قناعت اور خود داری کی دولت سے مالا مال دیکھے گئے ہیں۔ اگر اَمیراپنی آبادیاں غریبوں کی بستی سے علیحدہ نہ کرلیتے تو دونوں بستیاں خوب آباد ہوتیں….امیر غریبوں کے دکھ درد بانٹ کر احساس کی دولت بھی سمیٹ سکتے تھے لیکن انہوں نے جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور ختم ہوجانے والی دولت کا انتخاب کرلیا۔ اَب ہوا یوں کہ َامیروں کی بستی کے آس پاس اگر کوئی بستی بستی ہے تو وہ ان کے گھروں میں کام کرنے والوں کی بستی ہوتی ہے۔ گھروں میں کام کرنے والوں کو زکوٰة فنڈ سے عیدی دے کر ، انہیں زکوٰة ہی کے پیسوں سے رمضان کا راشن دلا کر، اور زکوٰة ہی سے انہیں عید کے کپڑے دلوا کر” احسانات“ کے بوجھ تلے اِس طرح دبایا جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی اضافی معاوضے کے پارٹ ٹائم سے فل ٹائم ذاتی ملازم بن جائیں۔ نَوآباد بستیوں میں زکوٰة دینے کا ایک انتہائی بے ڈھب طریقہ اُن نَودولتیوں کے ہاں دیکھا جاتا ہے ‘ جو رمضان میں زکوٰة کی مدّ سے اپنے گیراج میں راشن کے تھیلوں کا ایک ڈھیر لگاتے ہیں، محلے کے غریب روزہ داروں کو لائین حاضر کرتے ہیں اور اُن کی عزتِ نفس کوتوڑ کر راشن کا ایک ایک توڑا اُن کے جھکے ہوئے سَروں پر لاد یتے ہیں۔ جھکے ہوئے سَروں کو مزید جھکانے کا ہنر کوئی کم ظرفوں سیکھے!! اللہ کے بندو! زکوٰة فلاح یافتہ مومنوں کا عمل ہے….”وھم للزکوٰة فاعلون”۔ تزکیہ شدہ فلاح‘ یافتہ مومنوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ ایک ہاتھ سے دیتے ہیں اور دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی۔ اسی لیے زکوٰة دینے کیلئے زکوٰة لینے والے کو یہ بتانا ضروری نہیں کہ تمہیں زکوٰة دی جارہی ہے…. مبادا اُس کی عزتِ نفس مجروح ہوجائے۔ زکوٰة کسی غریب رشتہ دار کو تحفہ کہہ کر دی جا سکتی ہے۔ زکوٰة کے پیسوں سے کسی بے روزگارکو روزگار پیدا کرنے سامان دیا جا سکتا ہے…. کسی مقروض کو قرض سے نجات کیلئے زکوٰة دی جا سکتی ہے….آس پاس کسی غریب بچے کو اسکول کالج یونیورسٹی میں داخل کروایا جا سکتا ہے…. کسی غریب گھرانے کی بچی کے شادی کے اخراجات اپنے ذمے لیے جاسکتے ہیں۔ زکوٰة فرد کا فرد سے رابطہ ہے۔ لینے والا جب دینے والے کے چہرے کو دیکھتا ہے تو اسے وہ چہرہ دعا میں یاد رہتا ہے۔ بس کسی کے دل میں دعا بن کر ٹھہر گئے تو بیڑہ پار ہو گیا۔ زکوٰة کیلئے صرف رمضان کا موسم شرط نہیں۔ ہر موسم زکوٰة کا موسم ہے۔ موسمی نیکیوں سے بچنا چاہیے…. اس میں تصنع اور دکھاوے کا امکان ہوتا ہے۔ نیکی بے موسم ہونی چاہیے ، تاکہ بے موسم پھل ملے …. یعنی ایسا نتیجہ جو سبب سے آزاد اور ماورا ہو۔ زکوٰة کا نصاب صرف مال ہی نہیں ، نصاب زیست پڑھنے والے جانتے ہیں کہ زکوٰة ان کے جملہ اسباب و وسائل پر لاگو ہے…. ہمیں اپنے وقت کی زکوٰة بھی نکالنا چاہیے…. جو ہماری توجہ کے منتظر ہیں‘ ان کیلئے ہمیں وقت نکالنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے تعلقات پر بھی زکوٰة فرض ہے…. قیمتی لوگوں سے قیمتی تعلقات کسی ضروت مند کو فائدہ پہنچانے کیلئے استعمال ہونے چاہیئں، اس وہم میں نہیں پڑنا چاہیے کہ فلاں کی نظر میں ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔ تعلقات کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے سے عزت کم ہوتی ہے ، انہیں دوسروں کے کام آنے کیلئے استعمال کیا جائے تو عزت بڑھتی ہے…. اگر شبہ ہے تو آج ہی آزما کے دیکھ لیں! حقیقی تعلقات نیکی کے میدان میں پروان چڑھتے ہیں…. مادّی اور مالی تعلقات وقت کی دھوپ میں پڑے پڑے سوکھ جاتے ہیں!!

Featured Coloumn
Tag Cloud
No tags yet.
bottom of page