Khidmat-e-khalq aur khidmat-e-hak – Weekly Coloumn(15 June 2017)
خالقِ کائنات نے اتنی وسیع و عظیم ‘ جسیم و بسیط کائنات صرف انسان کیلئے بنائی ہے۔ اس کائنات میں ہونے والے ہر واقعے کا اوّل مخاطب انسان ہے۔ اگر مقصودِ تخلیق ِ کائنات انسان نہ ہوتا تو یہ کائنات ظہور پذیر ہی نہ ہوتی ! اس عالمِ وجود میں ہر شے انسان کیلئے موزوں ترین صورت اور مناسب ترین حجم میں موجود ہے ۔ پھلوں پر غرور کریں ‘ اُن کی ساخت پرداخت پر غور کریں ‘ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا انسان کے ہاتھوں میں تھما دینے کیلئے ہی بنائے گئے ہیں ۔ فرمایا گیا کہ پھلوں کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا۔ کائنات ایک شجرِ حیات ہے اور اس شجرہِ حیات کا ثمر انسان ہے۔ کلیہ ِحیات یہ ہے کہ ہر شجر کا منتہائے مقصود اُس کا پھل ہوتا ہے ۔ اگر شجر اپنے ثمر تک نہ پہنچے تو بقائے حیات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ کلام ِ مختصر یہ کہ انسان ‘جو کائنات کا ثمر ہے ٗ اگرہم اس کی معاونت نہیں کر رہے ‘ تو کائنات کی غایت سے گویا مغائیرت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر ہم انسان کی زندگی کو آسان نہیں کر پا رہے‘ تو خود بھی ثمربار نہیں ہوسکتے۔ گویا انسان کی خدمت درحقیقت کائنات کی غایتِ تخلیق سے ہم آہنگ ہونے کا نام ہے۔ خالق ِ کائنات جب کسی پر مہربان ہوتا ہے تو اسے اپنے بندوں کی خدمت پر مامور کر دیتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے”عبادت اس مقام تک نہیں پہنچاتی جہاں تک مخلوق کی خدمت پہنچاتی ہے۔”
خدمت فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ میں فرق ہے۔ انفاق اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا نام ہے اور خدمت اللہ کی راہ میں خرچ ہو جانے کا نام ۔ ضرور ت سے زائد خرچ کرنا یقینا نفع بخش سودا ہے لیکن ضرورت کے باوجود خرچ کرنا…. سود و زیاں سے پاک ہونے کا سودا ہے۔ سود وزیاں سے پاک ہی خوف اور حزن سے آزاد ہوتا ہے۔ خدمت کیلئے پاک ہونا پڑتا ہے …. ذاتی غرض اور مفاد سے پاک!! غرض مند ضرورت مند ہوتا ہے …. اور جو خود ہی ضرورت مند ہو ‘ وہ کسی کی ضرورت کیا پوری کرے گا! حاجت روائی وہی کرسکتا ہے ‘ جو خود کوئی حاجت نہ رکھتا ہو!! خدمت اپنی ہیئت ِ اصلیہ میں بے لوث ہوتی ہے …. اور بے لوث ہونا ہی بے خوف ہونا ہے۔ خوف و حزن سے آزاد ہونا اللہ کے فقیروں کی پہچان ہے۔ فقیری کا ایک شعبہ ہے ‘ جسے خدمت کہتے ہیں۔ خدمت ایک خالص روحانی کیف ہے۔ اس کیفیت سے گزرنا ایک روحانی واردات سے کم نہیں۔ خاموش خدمت بولتی ہوئی روحانیت ہے۔ خانقاہیں ‘دراصل خدمت گاہیں ہوتی ہیں۔ خدمت کی ابتدا محبت ہے اورمحبت کی انتہا عشق ہے…. اور عشق کی کوئی انتہا نہیں۔ جس مقام کی کوئی انتہا نہ ہو ‘ وہ لافانی ہوتا ہے۔ گویا محبت کی طرح خدمت بھی دارِ فنا میں مقیم انسان کو عازمِ بقا کرتی ہے ۔ خدمت کے حوالے سے مریض کی خدمت شاید سب سے اہم ہے۔ مریض تو مریض ہے ، مجبور ہے ، بہت سے حوالوں سے ضرورت مند …. اور یہ ضرور ت اسے اندر باہر سے توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ٹوٹے ہوۓ کو جوڑنا ایک کارِ درویشی ہے۔ راز یہ ہے کہ کسی کے وجود کی خدمت ‘ اپنی روح کو سرشارکرجاتی ہے۔ آج کل بیماری سستی ہے اور دوا مہنگی….گویا مریض ہونا غریب ہونے کے مترادف ہے۔ ایسے ماحول میں مریض کو مایوس اور غریب ہونے سے بچانے کی تگ و دَو ایک انداز میں اسلام کی خدمت بھی ہے …. کیونکہ مایوسی اور مفلسی کفر تک لے جاتی ہے !! مریض کو مرض کے ساتھ ساتھ مایوسی کے اندھیروں سے نکالنا بھی انتہائی اہم ہے، کیونکہ انسان صرف ایک خاکی وجود کا نام نہیں ‘ وہ روح اور قلب کا ایک مرقعِ خیال بھی ہے۔ جسم کے ساتھ ساتھ اس کا احساس بھی زخمی ہوتا رہتا ہے۔ اس کے احساس کے گھاؤ پر ہمت ، حوصلے اور اُمید کا مرہم رکھنا ضروری ہے۔ حضرت علی بن عثمان المعروف داتا گنج بخشؒ اپنی معروف تصنیف “کشف المحجوب” میں فرماتے ہیں:”مشائخِ کرام کے ہاں یہ دستور تھا کہ جب کوئی مرید ان کے پاس آتا تو اسے تین سالوں میں تین باتوں کی تعلیم دیتے؛ پہلے سال خدمتِ خلق ، دوسرے سال خدمتِ حق اور تیسرے سال اپنے قلب کی نگہداشت۔ اگر وہ اس پر قیام کرتا تو اسے قبول کر لیتے وگرنہ کہہ دیتے کہ طریقت اسے قبول نہیں کررہی۔ خدمتِ خلق اس وقت ممکن ہے جب وہ خود کو خادموں کے درجے میں رکھے ، اپنے علاوہ ہر کسی کومخدوم سمجھے اور بغیر کسی تفریق کے ہر خاص و عام کی اس طرح خدمت کرے کہ انہیں اپنے سے بہتر جانے، یہ بھی لازم ہے کہ وہ ہر کسی کی خددمت کو اپنے اوپر واجب سمجھے اور خود کو کسی صورت بھی ان سے بہتر نہ جانے کیونکہ ایسا سمجھنا بڑے گھاٹے کا سودا ہے، کھلا عیب ہے اور(راہِ سلوک میں ) ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے؛ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا آج کے زمانے میں ( یہ ایک ہزار سال پہلے کے انحطاط کی بات ہورہی ہے) پیدا ہونے والی خرابیوں میں سے ایسی خرابی ہے جس کا علاج نہیں۔ ( طالبِ حق) خدمتِ حق تعالیٰ اس وقت کر سکتا ہے جب وہ دنیا وآخرت کی تمام لذات سے خود کو منقطع کر لے اور خالص اللہ تبارک تعالیٰ کیلئے خود کو وقف کرتے ہوئے اس کی عبادت کرے۔ جو شخص محض اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر اور درجات کے حصول کی غرض سے عبادت کرتا ہے ‘وہ درحقیقت خدا کی عبادت نہیں کرتا بلکہ خود اپنی ذات کی پرستش میں مبتلا ہے۔ (خدمتِ حق میں جب اخلاص کا یہ عالم ہے تو) اسباب دنیا کے حصول کیلئے عبادت کیا معنی رکھتی ہے!! دل کی نگہداشت اِس طور کی جا سکتی ہے کہ (طالبِ حق) اپنے ارداے کو یکسو کر لے اور (سود زیاں کے) اندیشوں کو دل سے نکال دے ؛ اور محبتِ الٰہی کے مقام پر اپنے دل میں غفلت کے امکانات پر کڑی نگاہ رکھے۔” خدمت ِ خلق لطافت ِ قلب بھی دیتی ہے اور نزاکتِ احساس بھی۔ اس درجہ لطافت پر قیام کرنا گویا رُوحانیت کے کسی درجے پر فائز ہونا ہے۔ فی زمانہ ہر شخص معاشی اور معاشرتی حوالوں سے ایک دوسرے سے منسلک ہے‘ اس لیے دورِ حاضر میں خدمت ِ خلق کی اہمیت بھی دو چند ہوجاتی ہے۔ بددیانت ہونا معاشرے کیلئے ضرر رساں ہوجاتا ہے ….اورایک فرد کی دیانت پورے معاشرے کو فایدہ دے جاتی ہے۔ آج اگر کوئی شخص اپنے مقام پر دیانت دار ہوجاتا ہے تو وہ مخلوقِ خدا کیلئے منفعت بخش ہو جاتا ہے…. اس کے دیانت دار ہونے سے معاشرے کا پہیہ بغیر گڑگڑاہٹ کے چلنے لگتا ہے۔ درحقیقت شور اور شورش سے پاک ماحول پیدا کرنا معاشرے کی ایک بہت بڑی خدمت ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صرف میرے دیانتدار ہونے سے معاشرے میں کیا فرق پڑے گا۔ بھائی! تیرے دیانت دار ہونے سے اُس معاشرے میں ضرور فرق پڑتا ہے جو تیرے ارد گرد تیری شناسائیوں کی شکل میں موجود ہے….البتہ یہ ممکن ہے کہ خبروں، تبصروں اور بریکنگ نیوز میں نظر آنے والے معاشرے میں کوئی فرق نہ پڑے ، کیونکہ وہاں منفیت ہی خبریت کے درجے تک پہنچتی ہے…. اور ہر خبر کے نشر کیے جانے کے پیچھے پہلے سے طے شدہ ایک چھپی ہوئی غرض موجود ہوتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ اب خبر ایک خبر نہیں ہے ‘ بلکہ ایک ایجنڈا ہے!! الغرض! دیانتدار ہونا ،بے غرض اور بے لوث ہونا اس خدمتِ خلق کی اولین شرائط میں سے ہے جو تصوف کی شرطِ اوّل ہے۔ خدمتِ خلق جہاں مخلوق کی بھلائی کا باب ہے ‘ وہاں روحانی ترفیع اورمعرفت ِ حق کا زینہ بھی ہے….اوریہ طے ہے کہ …. اس زینے پر قدم رکھنے کیلئے غرض ، غرور ، فخر اورعُجب سے پاک ہونا لازم ہے۔ دل میں محبت کی جوت جگائے بِنا بے غرض خدمت ممکن نہیں …. کیونکہ صرف محبت ہی کو اِذن حاصل ہے کہ وہ ہر غرض سے پاک ہوسکے۔ محبت کی ریاضت دامن ِ خیال سے غروراور غرے کے ہر داغ کو دھو ڈالتی ہے!!
#drazharwaheed #aksekhayal #philosophy #aksekhayal #column #columns