top of page

Khubsurat Kahani ka aik kirdar – Weekly Coloumn (21 June 2017)

آج کل سوشل میڈیا پر ایک کہانی تواتر سے گردش کررہی ہے۔کہانی کی بھی عجب کہانی ہے ، ہر کہانی میں کردار ہوتے ہیں اور ہر کردار کے گرد کہانیاں ہوتی ہیں۔ جوہر شناس نظرصرف کردار دیکھتی ہے اور واقعات اور افراد سے صرفِ نظر کرتی ہے۔انسانی عظمت جہاں بھی ہو قابل تکریم اور قابلِ تذکیرہوتی ہے ! شاید انسان کولفظ اور بیان کا جوہراس لئے عطا کیا گیا ہے کہ وہ قابلِ ذکر کرداروں کا تذکرہ کرے اور ان کی زندگیوں سے خود کو زندہ کرنے کیلئے ایک تحریک لے سکے۔درحقیقت کتاب ناکافی رہتی ہے‘ جب تک کوئی کردار اس کتاب کی تلاوت نہ کرے۔ حضرت ِ اقبالؒ نے بندہ ِ مومن کے بارے میں کہا تھا: ع قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن ایک محفل میں حضرت واصف علی واصف ؒفرمارہے تھے ”علم سینہ بہ سینہ چلتاہے ‘تعلیم کتاب بر کتاب۔ سینے کا علم قائم رہتا ہے‘ کتاب کا علم دیرپا نہیں رہتا“۔

بہر حال پہلے کہانی سن لیں، پھر ان کرداروں کا ذکر بھی کریں گے ‘جو قابلِ ذکرتھے ، بوجوہ ان کاتذکرہ اس کہانی میں شامل نہ ہوسکا، لیکن ان ہی صاحب ِ کردار لوگوں نے اس کہانی میں ہیرو کا کردار بنانے میں کلیدی کردار کیا تھا۔کہانی کچھ ایسے لکھی گئی ہے کہ ”آج سے تقریباً 95سال قبل یعنی20ستمبر1916ءمیں لاہور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک بچہ پیدا ہوا‘ چاربہن بھائیوں میں یہ سب سے چھوٹاتھا‘ پوراگاؤں اَن پڑھ تھامگر اسے پڑھنے کا بے حد شوق تھا‘اس کے گاؤں میں کوئی سکول نہ تھا.لہٰذا یہ ڈیڑھ میل دور دوسرے گاؤں پڑھنے جاتا‘راستے میں ایک برساتی نالے سے اسے گزرناپڑتا‘چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ 8میل دُور دوسرے گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے جاتا‘ اس نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا‘مزید تعلیم حاصل کرنے لاہورآیا‘یہاں اس نے سنٹرل ماڈل سکول میں داخلہ لے لیا‘اس کا گاؤں شہر سے کافی دُور تھا‘ غریب ہونے کی وجہ اسے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل تھی مگر اس نے مشکل حالات کے سامنے ہتھیار نہ پھینکے۔ اس نے تہیہ کیا کہ وہ گاؤں سے دودھ لے کرشہر میں بیچے گا اور اپنی تعلیم جاری رکھے گا، چنانچہ وہ علی الصبح آذان سے پہلے اٹھتا‘ مختلف گھروں سے دودھ اکٹھا کرتا‘ڈرم کو ریڑھے پر لاد کر شہر پہنچتا‘ شہر میں وہ نواب مظفر قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانداروں کو دودھ فروخت کرتا ، مسجد میں جا کر کپڑے بدلتا اور سکول چلا جاتا‘ کالج کے زمانہ تک وہ اسی طرح دودھ بیچتا اور اپنی تعلیم حاصل کرتا رہا ‘ اس نے غربت کے باوجود کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا۔ 1935ءمیں اس نے میٹرک میں نمایاں پوزیشن حاصل کی اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخلہ لیا ۔1939ءمیں اس نے بی اے آنر کیا‘ یہ اپنے علاقہ میں واحد گریجویٹ تھا‘ معاشی دباؤکے تحت بی اے کے بعد اس نے باٹا پور کمپنی میں کلرک کی نوکری کر لی‘لیکن اس کا شوق قانون کی ڈگری لینا تھا‘ لہٰذا کچھ عرصہ بعد کلرکی چھوڑ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا اور 1946ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر لیا۔ 1950ءسے باقاعدہ پریکٹس شروع کر دی، اس پر خصوصی کرم یہ تھا کہ وہ خدمت ِ خلق پر ہمہ وقت کمر بستہ رہتا، اس نے لوگوں کی مدد سے اپنے علاقے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوا‘پیپلزپارٹی کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہو گیا۔ 1970ءمیں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوا اور نواب مظفر قزلباش کے بھائی کو جن کے گھر یہ دودھ بیچتا کرتا تھا‘ شکست دی۔ 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ میں وزیر خوراک اور پسماندہ علاقہ جات بنا‘ 1972ءمیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا‘ وزارت اعلیٰ کے دوران اکثر رکشے پر سفر کرتا۔ مزاج اور مقصد میں فرق کے سبب گورنر مصطفی کھر کے ساتھ نہ چل سکا ‘ اس کی وجہ سے استعفیٰ دے کر ایک مثال قائم کی‘ 1973ء میں اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کی قیادت کی‘ 1973ء ہی میں وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان اسے سونپا گیا۔ 1976ء میں وفاقی وزیر بلدیات و دیہی مقررکیا گیا‘ دو دفعہ سپیکر قومی اسمبلی بنا اور 4 سال تک انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کا ریکٹر رہا۔ایک غریب اوران پڑھ گوالے کا بیٹا آخر کار پاکستان کا نگران وزیراعظم بنا۔یہ پاکستان کا منفرد وزیراعظم تھا جو ساری عمر لاہور میں بیڈن روڈ میں کرائے کے مکان میں رہا‘ جس کے دروازے پر کوئی دربان نہ تھا‘ اورجس کا جنازہ بھی اسی کرائے کے گھر سے اٹھا۔جی ہاں! ملک معراج خالد!! ہماری سیاسی تاریخ کی ایک عہد ساز شخصیت ‘ جو 23 جون 2003 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئی ۔ملک معراج خالد جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے اپنے لیے وی آئی پروٹوکول لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک دن وہ مال روڈ سے گزر رہے تھے اور سڑک گورنر پنجاب کی آمد کی وجہ سے بندتھی، انہوں نے پاس کھڑے کانسٹیبل سے ٹریفک بند ہونے کی وجہ پوچھی تو کانسٹیبل نے ان کو نہیں پہچانا اور بتایا کہ گورنرکاقافلہ گزرنے والاہے۔ انہوں نے گورنر کو کال کی کہ تمہاری وجہ سے میں یہاں پھنسا ہوا ہوں۔دیانت داری اور سادگی کے اس مثالی کردار پر رب تعالیٰ اپنی رحمتیں نازل کرے۔“کہانی ختم ہوئی ۔ کہانی سے سبق کشید کرلیا جائے تو یہ حقیقت بن جاتی ہے ، حقیقت کو فراموش کردیا جائے تو یہ کہانی بن کر رہ جاتی ہے۔ ملک معراج خالد نے ثابت کیا کہ اصل میں ہر وزیرِ اعظم نگران وزیرِ اعظم ہی ہوتا ،بشرطیکہ خود کو بادشاہ تصور نہ کر لے۔ نگران اور امین لوگ ہی بوجھ ہلکا کرتے ہیں، حاکم اور مالک قسم کے لوگ تو قوم پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ دیانت داری کردار کی عظمتوں میں سے ہے ۔۔۔۔۔ اور کردار کی عظمت جہاں بھی ہو‘ نظریاتی اور سیاسی اختلاف کے باوجود قابلِ احترام ہوتی ہے۔ لازم نہیں کہ ہم کسی صاحب ِ کردار کی تعریف کرنے کیلئے‘ اسے سراہنے کیلئے ‘اس کے مرنے کا انتظار کریں۔حضرت واصف علی واصفؒ کے پنجابی کلام ”بھرے بھڑولے“سے ایک شعر یاد آرہا ہے: جیندے جی اک نہ منّی قبراں تے آپُھل چڑھائے قصہ مختصر اس خوبصورت کہانی میں ایک اہم کرداراس گاؤں میں تعینات ایک ہیڈ ماسٹر صاحب کا ہے ، ملک معراج خالد کے گاؤں کا نام ”گھوونڈ“تھا، یہ برکی ہڈیارہ کی طرف عین پاکستان ہندوستان کی سرحد پر واقع ہے۔ وہ ہیڈماسٹر صاحب اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، خاندانی طور پر ادب اورشاعری کا میلان انہیں ورثے میں ملا تھا۔سلسلہ چشتیہ کے سالک اس صوفی منش معلم کا نام ” صوفی عبدالغنی اصغرؔ” تھا۔ یہ قادرالکلام شاعر اور خطاط تھے۔حضرت بابافریدالدین گنج شکر ؒ کے خلیفہ حضرت علاؤالدین صابر ؒ کے فارسی دیوان کا منظوم اُردو ترجمہ ان کی ایک اہم ادبی کاوش ہے۔ قرآن کریم کا منظوم ترجمہ بھی شروع کیا لیکن زندگی نے وفا نہ کی، و ہ نامکمل رہا۔ ان کے والد عبدالرحیم اعوان نے کوٹ شیرباز خان قصورمیں ایک حویلی نما مکان تعمیر کیا تھا، یہ مکان قصور بھرمیں علمی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھااور ”دارالادب“ کے نام سے معروف تھا، یہاں سے وقتاً فوقتاً اصلاحی ادب پارے اور رسالہ جات شائع ہوتے رہتے ۔ صوفی عبدالغنی اصغر چھ بھائی تھے اور این خانہ ہمہ آفتا ب است کے مصداق سب لوگ شاعربھی تھے اور خطاط بھی۔یہ معلمی کو پیشہِ پیغمبری سمجھتے تھے اور سب کے سب معلم تھے۔ ان کے نام اورتخلص بالترتیب یہ تھے ، سب سے بڑے عبدالعزیز( یہ جوانی میں انتقال کرگئے ، ان کے بیٹے حکیم مظفر عزیز شاعر گزرے ہیں)، صوفی عبدالغنی اصغر،عبدالقادر عاجز بشیر احمدقصوری ، نذیر احمد ناظراور سب سے چھوٹے عبدالواحد نادرالقلم ملک کے معروف خطاط گذرے ہیں۔ عبدالرحیم اعوان راقم کے پردادا تھے ، بشیر احمد قصوری داد ا ، اور نادرالقلم نانا ہیں!! ملک معراج خالد کے اہلِ خانہ پرائمری کے بعد اسے مزید پڑھانے پرآمادہ نہ تھا،ان کاخیال تھا کہ پانچ جماعتیں کافی ہیں ، اب معراج گھر میں ڈھور ڈنگر سنبھالے۔ صوفی صاحب نے انہیں بہت قائل کیا کہ بچہ ہونہار ہے ، اسے آگے پڑھنے دو، جب وہ راضی نہ ہوئے تو صوفی صاحب نے انہیں کہا کہ اگر تم پر اس کی روٹی بھاری پڑ رہی ہے تو اسے میرے پاس چھوڑ جاؤ، میں اسے خود ہی پڑھالوں گا، پانچویں سے آٹھویں جماعت تک انہوں نے اسے اپنے پاس رکھا ، مڈل پاس کرنے کے بعد شہر میں اس کے ساتھ خود آئے اور اسے اسکول اوربعدازان راسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں خود داخل کروایا۔ ہمارے خاندان کی ہر خوشی غمی میں ملک معراج خالد آخر تک شامل ہوتے رہے۔ موصوف و مرحوم انتہائی ملنسار ، عاجز اورمتحمل مزاج شخصیت تھے ۔یہ قصہ اس لیے بیان کر دیا گیا ہے کہ آج کے معلم اورمتعلم دونوں کی فکر وعمل کیلئے زادِ راہ ٹھہرے ، سند رہے اور تاریخ میں حوالے کے طور پربوقت ِ ضرورت کام آئے۔

#aksekhayal #aksekhayal #drazharwaheed #philosophy #columns #column

Featured Coloumn
Tag Cloud
No tags yet.
bottom of page